السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
سیرت النبی ﷺ لمحہ بہ لمحہ
قسط نمبر 06
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ھاتھی والوں کے ساتھ کیا
کیا..؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا..؟ اللہ نے ان پر
پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں
پھینکتے تھے.. اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ھوۓ بھوسے کی طرح کردیا..
سورہ الفیل.. آیت 1 تا 5..
واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا جب یمن
کا حبشی نژاد عیسائی حکمران "ابرھہ بن اشرم" 60 ھزار فوج اور 13
ھاتھی لیکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا..
ابرھہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا جو شاہ
حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا "یوسف ذونواس"
کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی جس نے 525
عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی..
ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ھوۓ بالآخر یمن
کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ
نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو
نائب شاہ حبشہ کہلواتا رھا..
ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا.. اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد
اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا
ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا..
اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت "صنعاء" میں ایک عظیم
الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا جسے عرب مؤرخین "القلیس" اور یونانی "ایکلیسیا" کہتے ھیں.. اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد
تھے.. ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے
اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ھوجاتا
تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک
خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی , وہ یمن کے حبشی
عیسائیوں کے ھاتھ آ جاتی..
ابرھہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن
میں علی الاعلان منادی کرادی کہ " میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا
کی طرف موڑے بغیر نہ رھوں گا.."
اس کے اس اعلان پر غضب ناک ھو کر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ
کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی.. اپنے کلیسا
کی اس توھی