سیرتِ النبی قسط (35)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

سیرت النبی ﷺ لمحہ بہ لمحہ

قسط نمبر :- 35

مستند روایات سے ثابت ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاھلیت کے تمام اکل و شرب , لہو و لعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رھا.. باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بےحیائی میں ڈوبا ھوا تھا اور ایسے تمام بد اعمال عرب معاشرہ میں نہایت ھی پسند کیے جاتے تھے , اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا.. اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ھوۓ تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آۓ..

دوسری طرف ایسا کبھی نہ ھوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراھی کے کسی فعل میں شریک ھوۓ ھوں.. خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ھوتے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے.. اس دوران نہ صرف خود ایسی بداعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رھتے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراھیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا.. اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ھر قسم کی بےحیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراھی سے بھی محفوظ رکھا..

"جنگ فجار" میں شرکت..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بیس سال تھی جب قبیلہ قریش اور قبیلہ "قیس عیلان" کے درمیان ایک بہت ھی زبردست جنگ ھوئی.. یہ جنگ "حرب الفجار" کے نام سے مشھور ھے.. "بنی کنانہ" بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے.. یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا , فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا اس لیے اس جنگ کو "حرب الفجار" کا نام دیا گیا..

قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں.. بنو ھاشم کے علمبردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب زبیر بن عبدالمطلب تھے جبکہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے والد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دادا "حرب بن امیہ" کے ھاتھ میں تھی جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے..

ابن ھشام کے مطابق بازار عکاز میں ھونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا.. دونوں ھی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا.. بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی..

چونکہ اس تنازعہ میں قریش خود کو برسرحق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ھوۓ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران جنگ کسی پر ھاتھ نہیں اٹھایا بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رھے.. اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ھوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا.. دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ھی فریق مشرک تھے اس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بےمقصد قتل و غارتگری سے محفوظ رکھا کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ھو اور اسی کا بول بالا ھو جبکہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لیے لڑی گئی..

جنگ شروع ھوئی تو اول اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رھا لیکن دوپہر کے بعد بعد قریش بتدریج غالب ھوتے گئے اور بلآخر قریش ھی فتح یاب ھوۓ تاھم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں , جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے.. چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی اور یوں قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ تھم گیا..

معاھدہ "حلف الفضول" میں شرکت..

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے.. حرب الفجار کے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بےمعنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ھوئی اور یہ خیال پیدا ھوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے " فضل بن فضالہ , فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث" نے ایک معاھدہ مرتب کیا تھا جو انہی کے نام پر "حلف الفضول" کے نام سے مشھور ھوا اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جاۓ.. (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا اس لئے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں) جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور خاندان بنو ھاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی.. چنانچہ خاندان بنو ھاشم , بنو زھرہ اور بنو تیم "عبداللہ بن جدعان تیمی" کے گھر میں جمع ھوۓ.. وہ سن وشرف میں ممتاز تھا.. وھاں یہ معاھدہ طے پایا کہ ھم میں سے ھر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رھنے پاۓ گا..

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ھیں کہ "اس معاھدہ کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا.. اس معاھدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ھرگز پسند نہ کرتا اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاھدہ کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا.."

اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور "عاص بن وائل" نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا.. اس نے حلیف قبائل عبد الدار , مخزوم , جمح , سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی.. اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی.. اس پر جناب زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے..؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے.. پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا..

"حلف الفضول" کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا جسے قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ھوا.. اس لیے اس معاھدہ کو زمانہ جاھلیت کے بہترین معاھدہ کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ھے..

( جاری ہے )

ریفرنس بُکس

- سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
- سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
- الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
- تاریخ ابن کثیر ( البدایہ والنھایہ )

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو. صبح بخیر. پاکستان میں فجر کی نماز کا وقت ھو گیا ھے. نماز نیند سے بہتر ھے. اللہ کو پسند انسانوں کا پرندوں سے پہلے جاگ جانا. جزاک اللہ خیر
“Assalam-o-Alaikum  Wa-Rehmatullahe -Wabarkatu-ho
and is the mercy of Allah and his blessings. Safely in the morning. The time of Fajr prayer in Pakistan is completely. Prayer is better than sleep. Wake up before birds of humans like Allah. JazakALLAH

سیرتِ النبی قسط (34)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

سیرت النبی ﷺ لمحہ بہ لمحہ

قسط نمبر :- 34

بعض روایات کے مطابق جو تحقیق کے رو سے مجموعی طور پر ثابت اور مستند ہیں , جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر نکلے.. حضرت ابوطالب کا تجارتی قافلہ سرزمین شام میں بصری' شہر کی اہم تجارتی منڈی کے قریب پہنچا تو وھاں پڑاؤ ڈال دیا.. بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے.. اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا..

وھیں قریب ھی ایک صومعہ (گرجا) تھا جس میں "جرجیس" نامی ایک عیسائی عبادت گزار راھب رھتا تھا جو " بحیرہ راھب " کے نام سے مشھور تھا.. اھل تحقیق کے نزدیک بحیرا راھب موحد تھا , مشرک یا بت پرست نہ تھا.. وہ تمام آسمانی کتابوں کا عالم اور نبی آخرالزماں کی جو علامات آسمانی کتابوں میں مذکور تھیں , ان سے بخوبی واقف تھا..

اس سے پہلے بھی بارھا اس کے صومعہ (گرجا) پاس سے تجارتی قافلے گزرتے رھے تھے مگر بحیرا کبھی کسی کی طرف ملتفت نہ ھوا تھا لیکن جب اس بار حضرت ابوطالب کا کاروان تجارت اس کے گرجا کے پاس اترا تو اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے.. بحیرا راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے..

بحیرا راھب خلاف معمول اپنی عبادت گاہ سے باھر نکل آیا اور متجسسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا.. پھر جیسے ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھتے ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ھاتھ پکڑ لیا اور پکار اٹھا..

"یہی ھے سردار دوجہانوں کا.. یہی ھے رسول پروردگار عالم کا جس کو اللہ جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا.."

حضرت ابوطالب نے کہا.. "آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا..؟"

بحیرا راھب نے بتایا.. "جب آپ سب لوگ پہاڑ کی گھاٹی سے نکلے تو اس وقت میں اپنی عبادت گاہ سے آپ سب کی طرف دیکھ رھا تھا.. میں نے دیکھا کہ اس نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے.. پھر میں نے دیکھا کہ کوئی شجر و حجر ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ھو اور شجر و حجر نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ (تعظیم) نہیں کرتے ھیں.. اس کے علاوہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مہرنبوت کی وجہ سے بھی پہچان چکا ھوں جو آپ کے کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس ھے اور ھم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ھیں.."

راھب یہ کہ کر واپس ھوگیا اور بصد اشتیاق تمام قافلہ کے لیے کھانا تیار کرایا.. جب کھانا تیار ھوا تو سب کھانے کے لیے حاضر ھوۓ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ تھے.. راھب کے دریافت کرنے پر معلوم ھوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ چرانے آس پاس نکل گئے ھیں.. ایک آدمی بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا گیا.. سب لوگ جس درخت کے نیچے بیٹھے ھوۓ تھے وھاں کوئی سایہ دار جگہ آپ کے لیے بچی ھوئی نہ تھی.. سایہ دار جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دھوپ میں ھی بیٹھ گۓ تو درخت کی شاخیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئیں.. بحیرہ ان سارے معاملات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رھا تھا..

اس نے حضرت ابوطالب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے.. حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں..

اس کے بعد بحیرا راہب نے حضرت ابوطالب سے کہا.. "آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ تمام نشانیاں موجود ھیں جو آسمانی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی کے متعلق بتائی گئی ھیں.. اگر شام کے یہود و نصاری' نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ نشانیاں پہچان لیں تو مجھے ڈر ھے کہ کہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کو نقصان نہ پہنچا دیں.."

چنانچہ بحیرہ کے مشورہ پر حضرت ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کو مکہ واپس بھیج دیا.. اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ نہیں لے گئے مبادا کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے.. اسی سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی..

نوٹ.. نیچے جس درخت کی تصویر دی گئی ھے , کہتے ھیں کہ یہ وھی درخت ھے جس کے نیچے بحیرہ راھب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور قافلہ قریش کو کھانا کھلایا تھا.. اسے "صحابی درخت" کہا جاتا ھے اور یہ آج بھی موجود ھے.. واللہ اعلم..

( جاری ہے )

ریفرنس بُکس

- سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
- سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
- الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
- تاریخ ابن کثیر ( البدایہ والنھایہ )

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو. صبح بخیر. پاکستان میں فجر کی نماز کا وقت ھو گیا ھے. نماز نیند سے بہتر ھے. اللہ کو پسند انسانوں کا پرندوں سے پہلے جاگ جانا. جزاک اللہ خیر
“Assalam-o-Alaikum  Wa-Rehmatullahe -Wabarkatu-ho
and is the mercy of Allah and his blessings. Safely in the morning. The time of Fajr prayer in Pakistan is completely. Prayer is better than sleep. Wake up before birds of humans like Allah. JazakALLAH

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو. صبح بخیر. پاکستان میں فجر کی نماز کا وقت ھو گیا ھے. نماز نیند سے بہتر ھے. اللہ کو پسند انسانوں کا پرندوں سے پہلے جاگ جانا. جزاک اللہ خیر
“Assalam-o-Alaikum  Wa-Rehmatullahe -Wabarkatu-ho
and is the mercy of Allah and his blessings. Safely in the morning. The time of Fajr prayer in Pakistan is completely. Prayer is better than sleep. Wake up before birds of humans like Allah. JazakALLAH

سیرتِ النبی قسط)(33)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

سیرت النبی ﷺ لمحہ بہ لمحہ

قسط نمبر :- 33

ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا.. لوگ قحط سے دوچار تھے.. قریش نے کہا.. ابو طالب ! وادی قحط کا شکار ہے , بال بچے کال کی زد میں ہیں ,چلیے ! (کعبہ چل کر) بارش کی دعا کیجیے..

حضرت ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے.. بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو.. اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے.. حضرت ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی.. بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی.. اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا لیکن (دیکھتے دیکھتے ) اِدھر اُدھر سے بادل کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر وبیاباں شاداب ہوگئے.. بعد میں حضرت ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں کہا تھا..

وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ..
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل..

"وہ ایسے روشن و منور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے.. یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں.."

گانے بجانے کی محفل سے محفوظ..

حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے.. ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی.. گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت تھک گئے تھے اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی.. اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی.. جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی.. اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس محفل سرود میں شریک نہ ہو سکے اور آئندہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا..

بت پرستی سے محفوظ..

دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا.. لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے , سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لئے کہا جاتا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار فرماتے.. ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں گئے لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے.. جب دکھائی دئیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے.. پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ "ائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے" اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے جہاں بتوں پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی..

ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا.. سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے.. حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے پاس لے گئے.. اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا.. تھوڑی دیر بعد اس نے آپ کو اپنے سامنے لانے کو کہا لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر بھیج دیا.. اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ.. خدا کی قسم ! وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے..

شام کا تجارتی سفر..

حضرت ابوطالب کا پیشہ بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح تجارت تھا.. وہ سال میں ایک بار تجارت کی غرض سے ملک شام کو جاتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تقریبا" بارہ برس تھی کہ حضرت ابوطالب نے حسب دستور شام کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ چلنے کی خواھش کا اظہار کیا.. حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کم عمری , دوران سفر مشکلات اور تکلیفوں یا کسی اور وجہ سے آپ کو ساتھ نہ لے جانا چاھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شفیق چچا سے اتنی محبت تھی کہ جب حضرت ابوطالب چلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے لپٹ گئے.. اب حضرت ابوطالب کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود سے جدا کرنا ممکن نہ رھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساتھ لے لیا..

مؤرخین کے مطابق اسی سفر شام کے دوران ایک عیسائی راھب "بحیرہ" کا مشھور واقعہ پیش آیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں.. اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو خطرہ ھو سکتا ھے چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کردیا اور واپس مکہ آ گئے..

اس واقعہ کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں تفصیل سے بیان کیا جاۓ گا..

( جاری ہے )

ریفرنس بُکس

ـ سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی
ـ تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)
ـ سیرت ابن ھشام

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو. صبح بخیر. پاکستان میں فجر کی نماز کا وقت ھو گیا ھے. نماز نیند سے بہتر ھے. اللہ کو پسند انسانوں کا پرندوں سے پہلے جاگ جانا. جزاک اللہ خیر آج جمعہ ہے سورہ کہف اور سورہ جمعہ بھی پڑھیں  اور  دورد  ابراہیمی جیتنا ہو سکتا وہ بھی پڑھیں.
“Assalam-o-Alaikum  Wa-Rehmatullahe -Wabarkatu-ho
and is the mercy of Allah and his blessings. Safely in the morning. The time of Fajr prayer in Pakistan is completely. Prayer is better than sleep. Wake up before birds of humans like Allah. JazakALLAHا

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو. صبح بخیر. پاکستان میں فجر کی نماز کا وقت ھو گیا ھے. نماز نیند سے بہتر ھے. اللہ کو پسند انسانوں کا پرندوں سے پہلے جاگ جانا. جزاک اللہ خیر
“Assalam-o-Alaikum  Wa-Rehmatullahe -Wabarkatu-ho
and is the mercy of Allah and his blessings. Safely in the morning. The time of Fajr prayer in Pakistan is completely. Prayer is better than sleep. Wake up before birds of humans like Allah. JazakALLAH

Prayers Reminder

حي على الصلاة
 
حَيّ عَلَي الفَلاح
 

السلام و علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ ھو.
عشاء کا وقت آج ماشاءاللہ کس کس کی آج پانچوں نمازیں پوری ھوتی. الحمدللہ اگر رہ گئی تو کل سے کوشش کریں کہ قضا نہ ھو. جزاک اللہ خیر
Nope ishaa time how the five prayers today are met. Praise be dropped if not tomorrow
then try to make that happen JazakALLAH

سیرتِ النبی قسط (32)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

سیرت النبی ﷺ لمحہ بہ لمحہ

قسط نمبر :- 32

حضرت عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت اھمیت کا حامل ھے.. قصی بن کلاب نے جملہ امور ریاست آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد "عبدمناف" کے حوالے کیے تھے جو کہ بعدازاں ان کے بیٹے اور آپ کے پردادا حضرت ھاشم کے حصہ میں آۓ.. دوسری طرف حضرت ھاشم کے ھی دور میں خانہ کعبہ کی تولیت کے زیادہ تر حقوق بھی حضرت ھاشم نے حاصل کرلیے اور ان سے یہ تمام اختیارات حضرت عبدالمطلب کو بھی وراثتا" حاصل ھوۓ.. ان کی حیثیت اپنے والد حضرت ھاشم کی طرح مکہ کے سردار کی تھی لیکن ان کی وفات نے دفعتا" بنو ھاشم کے اس رتبہ امتیاز کو گھٹا دیا اور کئی دھائیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیاوی اعتبار سے خاندان بنوامیہ خاندان بنو ھاشم پر غالب آگیا اور مکہ کی مسند ریاست پر "حرب" متمکن ھوا جو "امیہ" کا نامور فرزند تھا.. حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ انہی حرب بن امیہ کے بیٹے تھے اور حرب کے بعد مکہ کے سردار اور سپہ سالار بنے.. حرب بن امیہ نے ریاست اور تولیت خانہ کعبہ کے جملہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیے اور صرف "سقایہ" یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت ھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رھی جو حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے..

حضرت عبدالمطلب کے مختلف ازواج سے دس بیٹے تھے جن میں سے آنحضرت کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی' عنہ کے والد جناب ابو طالب ماں کی طرف سے سگے بھائی تھے اس لیے حضرت عبدالمطلب نے آپ کو حضرت ابوطالب کے ھی آغوش تربیت میں دے دیا.. اس کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹیوں یعنی آپ کی پھوپھیوں اروی' , امیمہ , برہ , صفیہ , عاتکہ اور ام حکیم البیضاء کو بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اور خیال رکھنے کی وصیت کی..

حضرت ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لے آئے.. ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش میں انہوں نے بڑی دلجمعی سے حصہ لیا.. حضرت ابوطالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور مرتے دم تک آپ کے سر پر کسی مضبوط سائبان کی طرح سایہ کیے رکھے.. ان کی محبت اس درجہ بڑھی ھوئی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں اپنی سگی اولاد کی بھی پرواہ نہ کرتے اور حضرت عبدالمطلب کی طرح ھر وقت آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے..

حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے اس لئے بڑی عُسرت اور تنگدستی سے گزر بسر ہوتی تھی.. باوجود کم سِنی کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے گھر کی یہ حالت دیکھی تو کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا.. لوگوں کی بکریوں کو اُجرت پر چراتے اور بکریوں کو مکہ کی ایک پہاڑی "اجیاد" کے قریب "اریقط" نامی مقام پر لے جایا کرتے اور اس سے جو کچھ اجرت ملتی وہ اپنے چچا کو دیتے.. عرب میں بکریاں چرانا کوئی معیوب کام نہ تھا.. بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ ان بچوں کے لیے کوئی کام نہیں بلکہ ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور عرب طرز معاشرت کا جائزہ لیا جاۓ تو اسے باآسانی سمجھا جاسکتا ھے..

زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے.. ایک مرتبہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اسی جنگل میں تشریف لے گئے.. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اراک (پیلو کے درخت) کے پھل چُن رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "جو سیاہ ہو گیا وہ لے لو کہ وہی سب سے اچھا ہوتا ہے.." اس پر صحابہ نے عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے.." فرمایا.. "ہاں ! کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں.."

دس بارہ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مشغلہ جاری رہا..

( جاری ہے )

ریفرنس بُکس

- سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
- سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
- الرحیق المختوم اردو.. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
- تاریخ ابن کثیر ( البدایہ والنھایہ )

Disqus Shortname

designcart